
امید پورٹل میں وقف املاک کے رجسٹریشن سے اجتناب کیا جائے:آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ
نئی دہلی، 15جولائی (یو این آئی)پارلیمنٹ سے متنازعہ وقف ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد سے ملک کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں بلکہ بعض مقامات پر دیہاتوں اور قصبات تک میں متعدد عوامی جلسے، راؤنڈ ٹیبل میٹنگس، انٹرفیتھ پروگرام اور پریس کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا۔ ضلع اور شہر کی سطح سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے صدر جمہوریہ کو وقف قانون کے خلاف سیکڑوں کی تعداد میں میمورنڈم دئے گئے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ وقف بچاؤ دستور بچاؤ مہم کے کنوینر اور بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی کوششوں سے ملک کی متعدد ریاستوں میں متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف پورے زور شور کے ساتھ تحفظ اوقاف مہم جاری ہے۔ چھوٹے بڑے کئی شہروں میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد ہو چکا ہے جس میں بورڈ کی قیادت کے علاوہ متعدد ممبران پارلیمنٹ سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنما بھی شریک رہے۔ بڑے بڑے جلسوں کے علاوہ برادران وطن کی ذہن سازی کے لیے متعدد بڑے شہروں میں راؤنڈ ٹیبل میٹنگوں کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں سیاسی سماجی قائدین، سول سوسائٹی کی اہم شخصیات شریک ہوئیں اور اس سے اتفاق کیا کہ پارلیمنٹ سے منظور وقف ترمیمی قانون نہ صرف امتیاز و تفریق پر مبنی ہے بلکہ دستور کی بنیادی دفعات سے بھی راست متصادم ہے ۔13 جولائی کو تحفظ اوقاف مہم کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد تمام ریاستی کنوینرس کے ساتھ ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں اب تک کی کاروائی کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ مرحلے کے لیے تجاویز و مشورے بھی طلب کئے گئے، جنہیں بہت جلد بورڈ کی عاملہ کی منظوری کے بعد دوسرے مرحلے کا روڈ میپ منظر عام پر لایا جائے گا ۔کنوینر تحفظ اوقاف نے اپنے بیان میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ امید وقف پورٹل میں وقف املاک کو اس وقت تک رجسٹر نہ کیا جائے جب تک کہ اس قانون پر سپریم کورٹ کا کوئی واضح فیصلہ نہ آ جائے۔
حکومت وقف بورڈ کے چیئرمینوں اور دیگر اہلکاروں کے ذریعے متولیان پر دباؤ بنا رہی ہے کہ وہ وقف املاک کو فی الفور امید پورٹل پر رجسٹر کروائیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر یہ کام 6 ماہ کے اندر نہیں کیا گیا تو اس کا وقف املاک کو نقصان ہوگا۔ ہم یہ بات واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وقف ترمیمی قانون 2025 سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے۔ جس کے خلاف متعدد پٹیشن داخل ہو چکی ہیں۔ یہ قانون نہ صرف امتیاز و تفریق پر مبنی ہے بلکہ دستور ہند کے بنیادی حقوق کی متعدد دفعات سے بھی متصادم ہے۔ لہذا حکومت کا بعجلت ممکنہ اوقافی املاک کو رجسٹر کروانے کا فیصلہ عدالت عظمی کی اہانت ہے۔ بورڈ بہت جلد حکومت کی اس کارکردگی کے خلاف عدالت عظمی سے رجوع کرے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تمام متولیان اور وقف بورڈ چیئرمینوں سے گزارش کرتا ہے کہ وہ امید پورٹل پر وقف املاک کے رجسٹریشن کے لیے عوام پر دباؤ نہ ڈالیں۔ البتہ بورڈ تمام متولیان سے یہ بھی گزارش کرتا ہے کہ وہ اس درمیان وقف املاک سے متعلق تمام ضروری کاغذات اور قانونی دستاویز ضرور حاصل کر کے اپنے پاس محفوظ رکھیں تاکہ وہ آئندہ کام آسکیں ۔بعض سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور میڈیا پورٹل یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اتر پردیش میں وقف سے متعلق کوئی کام انجام نہیں دیا جا رہا ہے، یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اتر پردیش میں بھی بورڈ کے ذریعے کئی کام انجام دئے جا چکے ہیں۔ البتہ بڑے پروگراموں کا انعقاد نہیں ہو سکا، اس کی وجہ حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔ نہ تو بڑے پروگراموں کے لیے اجازت دی جا رہی ہے بلکہ اگر لوگ صرف کالی پٹیاں لگا کر یا پوسٹرس اور بینرس کے ذریعے پرامن اور قانونی طریقہ سے احتجاج کر رہے ہیں تو ان کے خلاف بھی ظالمانہ طریقہ پر قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے۔ تاہم بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پرامن طریقہ پر احتجاجی پروگراموں کا لکھنؤ اور دیگر بڑے شہروں میں بہت جلد انعقاد ہوگا۔ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ ان متنازعہ ترمیمات کے خلاف پوری اپوزیشن پارٹیوں کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مظاہرہ اور بورڈ کی تحفظ اوقاف کانفرنسوں میں سیاسی و سماجی رہنماؤں، سول سوسائٹی کی اہم شخصیات کی شرکت یہ ثابت کر رہی ہے کہ ملک کا سواد اعظم بی جے پی حکومت کے ذریعہ لائی گئی ان ترمیمات کے خلاف نہ صرف صف آراء ہے بلکہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ دیر یا سویر رائے عامہ کے دباؤ میں حکومت کو ان سیاہ ترمیمات کو واپس لینا ہوگا۔