سپریم کورٹ نے وقف ایکٹ کےعبوری حکم نامے پر فیصلہ کیامحفوظ

یہ قانون بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کرتاہے : کپل سبل
نئی دہلی، 22 مئی (یو این آئی) سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر لگاتار تین دن تک سماعت کے بعد جمعرات کو اپنا عبوری فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج کرائسٹ کی بنچ نے تین دن تک تمام متعلقہ فریقوں کے دلائل کی تفصیل سے سماعت کی۔ سینئرایڈوکیٹ کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی کی قیادت میں عرضی گزاروں نے بینچ کے سامنے عبوری راحت کی درخواست کی، جب کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے، ترمیم شدہ قانون کو درست قرار دیا۔سماعت کے دوران، مسٹر سبل اور مسٹر سنگھوی نے نئی دفعات کے نفاذ پر عبوری روک لگانے کے لیے مختلف دلائل اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ شکل میں یہ قانون بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔مسٹر سبل نے کہا کہ نئے قانون کے تحت سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلموں کی نمائندگی کا انتظام کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی دفعات نے وقف املاک کے انتظام کے حق کو کمزور کردیا ہے۔ کونسل کے 11 میں سے سات ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔پارلیمنٹ کے ذریعہ نافذ کردہ قانون کی آئینی حیثیت کے تصور پر چیف جسٹس کے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے، ایڈوکیٹ سبل نے کہا کہ اگر قانون پر روک نہیں لگائی جاتی ہے، تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا، خاص طور پر جب ضلع کلکٹر کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری ملکیت۔سالیسٹر جنرل نے مرکزی حکومت کا رخ پیش کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے موقف کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی روایت میں وقف ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔ وقف بورڈ کا کام سیکولر نوعیت کا ہے اور یہ صرف انتظامیہ دیکھتی ہے۔ اس لیے ایسے بورڈز میں غیر مسلموں کو شامل کرنا آئینی ہے۔انہوں نے کہا کہ وقف ایک اسلامی تصور ہے، لیکن یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ چیریٹی ہر مذہب بشمول ہندو اور عیسائیت میں موجود ہے۔ وقف املاک کا انتظام، مناسب کھاتوں کو برقرار رکھنا اور آڈٹ کو یقینی بنانا مذہبی کام نہیں ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کے ہونے سے وقف کی مذہبی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ یہ بورڈ مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتے۔وقف ایکٹ میں ترمیم کے جواز کو چیلنج کرنے والوں میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی شامل ہیں۔ترمیم شدہ قانون کی حمایت کرنے والوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت چھ ریاستی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ہریانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور آسام نے اس قانون کی حمایت کی ہے۔ ان ریاستوں نے انتظامی مضمرات کا حوالہ دیتے ہوئے ترمیم کی حمایت کی ہے۔قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا نے 3 اپریل 2025 کو وقف (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا تھا۔ راجیہ سبھا نے اسے 4 اپریل کو منظوری دی تھی اور اگلے دن 5 اپریل کو صدر جمہوریہ نے ترمیم شدہ قانون کو اپنی منظوری دے دی تھی۔