غزہ میںشہید ہونے والوں کی تعداد 2300 سے زائد

یروشلم، 15 اکتوبر (یواین آئی)  اسرائیلی فوج کی طرف سے فضائی بمباری سے اس وقت تک مرنے والے فلسطینی شہریوں کی تعداد 2329 ہو گئی ہے جبکہ 9714 افراد زخمی ہوئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں کی تعداد 2300 سے زائد ہو گئی۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے فضائی بمباری سے اس وقت تک مرنے والے فلسطینی شہریوں کی تعداد 2329 ہو گئی ہے جبکہ 9714 افراد زخمی ہوئے ہیں۔حماس کی طرف سے اسرائیل میں کیے گئے حملوں میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1300 سے زائد بتائی جا رہی ہے۔اسرائیلی فوج نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر زمینی، فضائی اور سمندری حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ مگر ابھی ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ سب کب کیا جائے گا۔سنیچر کی رات اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ان حملوں کی تیاری کرنے والے فوجیوں سے ملاقات کی ہے۔ ایک ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے ہیں اور وہ فوجیوں سے کہہ رہے کہ کیا آپ اگلے مشن کے لیے تیار ہیں۔ ابھی آگے بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔رات بھر اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔ اسرائیل کی طرف سے لاکھوں فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ میں زمینی آپریشن شروع کرنے کے امکانات کے بعد ہزاروں فلسطینی غزہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس انخلا سے متعلق اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ چھوڑنے والوں کو تین گھنٹوں کے ایک محفوظ رستہ دیا جائے گا۔ تاہم ان شہریوں کو ہر صورت میں مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے سے لے کر دوپہر ایک بجے تک سرحد پار کرنا ہو گی۔یہ رستہ بیت حنون سے خان یونس کی طرف جاتا ہے۔ ترجمان کے مطابق ان تین گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج یہاں سے گزرنے والوں پر بمباری نہیں کرے گی۔ابتدائی طور پر اسرائیل نے 24 گھنٹوں میں غزہ کے شمالی حصے سے شہریوں کو نکلنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے دو رستے اس مقصد کے لیے وقف کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک رستہ یہی تھا جس کے بارے میں اسرائیلی فوج نے اب تین گھنٹوں کی حد مقرر کی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے انخلا کے اس حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتال میں داخل مریضوں کو وہاں سے زبردستی نکلنے پر مبجور کرنا انھیں سزائے موت دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کی جانب سے 11 لاکھ افراد کو متوقع زمینی حملے سے قبل وہاں سے نکل جانے کے لیے خبردار کیے جانے کے بعد غزہ کے ہزاروں شہری شمالی علاقے کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی نے لوگوں کی بڑے پیمانے پر اس نقل و حرکت کو انخلا قرار دیا ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ کا اگلہ مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ گذشتہ رات اسرائیلی فوجیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ پر زمینی، فضائی اور سمندری حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ تاہم انھوں نے اس حملے کے لیے کوئی متعین وقت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔عالمی ادارہ صحت نے اسرائیل کی طرف سے غزہ سے شہریوں کے انخلا کے حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریضوں کو ہسپتالوں سے نکل جانے پر مجبور کرنا انھیں سزائے موت دینے جیسا ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اب آٹھویں روز میں داخل ہو چکی ہے تو اس جنگ میں دونوں اطراف 3600 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1300 سے زائد جبکہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے 2300 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی لبنان میں جمعے کے روز بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے صحافی کی موت کی تحقیقات کر رہی ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے دوسرا ایئرکرافٹ بھی بھیج رہا ہے تا کہ اسرائیل مخالف عناصر پر رعب و دبدبہ برقرار رکھا جا سکے۔امداد لے کر آنے والے ٹرک رافح کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کے لیے گھنٹوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سرحد بند ہونے کی وجہ سے اب یہاں سے غزہ کو امداد کی فراہمی بھی رک گئی ہے۔تصاویر میں مصر اور ترکی سے سامان لے کر جانے والے ٹرکوں کی ایک قطار دکھائی گئی ہے، جو سرحدی گزرگاہ کے قریب العریش شہر میں غزہ میں داخل ہونے کا انتظار میں ہے۔اطلاعات کے مطابق حال ہی میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد کراسنگ کو بند کر دیا گیا تھا، جس سے کراسنگ کے فلسطینی جانب تباہی ہوئی تھی۔اسرائیل کی جانب سے فضائی بمباری کی وجہ سے حالیہ دنوں میں اس چیک پوائنٹ کو بند کر دیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس بمباری کی وجہ سے غزہ کی پٹی والی طرف سرحد کو نقصان بھی پہنچا، جس کے بعد یہاں سے لوگوں کا یہاں سے اندر آنے یا باہر جانے کا سلسلہ رک گیا۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں رہنے والوں تک امدادی سامان بھی اب سرحد پر پہنچ کر رک گیا ہے۔ اب امداد فراہم کرنے والے ادارے حکام سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ ان کے امدادی قافلوں کو آبادی تک پہنچنے میں رسائی دی جائے۔