سیاست اور مذہب کو الگ کرنے سے بند ہوں گے نفرت انگیز تقاریر: سپریم کورٹ

نئی دہلی، 29 مارچ (یو این آئی) سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ جس لمحے سیاست اور مذہب کو الگ کیا جائے گا، نفرت انگیز تقریر بند ہو جائے گی۔جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتھنا کی بنچ نے نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے معاملے میں ریاستی حکومت کی بروقت کارروائی پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے تناظر میں بنچ نے کہاکہ ’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس پنڈت جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپائی جیسے خطیب تھے۔ دیہی علاقوں سے لوگ ان کو سننے آتے تھے۔ اب جن لوگوں کے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں ہے وہ اس طرح کی تقریریں کر رہے ہیں۔نفرت انگیز تقریر کے سلسلے میں بنچ نے کہاکہ "حکومتیں سماج سے اس جرم کو ختم کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار کیوں نہیں بنا سکتی ہیں؟ بھائی چارے کا خیال بہت اچھا تھا لیکن ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔بنچ نے کہاکہ ’’ تحمل ہونا چاہیے۔ اس ملک کے شہریوں کو حلف لینا چاہیے کہ وہ دوسروں کی تذلیل نہیں کریں گے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کا استعمال لعنت کا ایک شیطانی چکر ہے، جو حکومتوں کی بروقت کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے جاری ہے۔بنچ کیرالہ کے شاہین عبداللہ کی طرف سے مہاراشٹر حکومت کے اہلکاروں کے خلاف ایک توہین آمیز درخواست کی سماعت کر رہی تھی کہ وہ واقعات کی ایک سیریز میں نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی۔جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ کا کہنا ہے کہ ’’جب ہیٹ کرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اسے ہماری زندگی میں جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ ہیٹ اسپیچ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اس معاملے میں 20 فروری کی سماعت میں عدالت نے دہلی پولیس کو 2021 میں قومی راجدھانی میں مذہبی اجلاس میں دیے گئے نفرت آمیز بیانات کے ایک معاملے میں چارج شیٹ فائل کرنے کو بھی کہا تھا۔ اس پر دہلی پولیس کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کورٹ کو بتایا کہ معاملے کی جانچ ایڈوانس اسٹیج میں ہے۔