یوکرین تنازع پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں: روسی صدر

ماسکو،  26 دسمبر (یو این آئی) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین کی  جنگ میں شامل تمام فریقین کے ساتھ روس مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یوکرین  اور اس کے مغربی حامیوں نے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ڈان  اخبار میں شائع غیر ملکی  خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے 24  فروری کو یوکرین پر حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سب سے شدید  تنازع کو جنم دیا ہے، یہ 1962 میں ’کیوبا میزائل تنازع‘ کے بعد روس اور  مغرب کے درمیان سب سے بڑا تصادم ہے، اس جنگ کے خاتمے کا امکانات تاحال  انتہائی کم نظر آرہے ہیں۔روس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑے گا جب تک اس  کے تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے، جبکہ یوکرین نے اپنی سرزمین سے ہر روسی  فوجی کو باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں کریمیا  بھی شامل ہے جس کا روس نے 2014 میں الحاق کیا تھا۔پوتن نے روس کے  سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہم قابل قبول حل کے بارے  میں ہر ایک کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ اُن پر منحصر ہے،  مذاکرات سے انکاری ہم نہیں، وہ ہیں‘۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز  نے رواں ماہ شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’بیشتر تنازعات کا  اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے لیکن سی آئی اے کا اندازہ ہے کہ جنگ کے خاتمے  کے لیے روس ابھی تک حقیقی مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے‘۔ یوکرین کے  صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک مشیر نے کہا کہ ’پیوٹن کو اس حقیقت کے ادراک  اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روس ہی ہے جو کسی قسم کے مذاکرات نہیں  چاہتا‘۔انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’روس نے تن تنہا یوکرین پر حملہ  کیا اور شہریوں پر حملہ آور ہے، روس مذاکرات نہیں چاہتا لیکن اس سب کی  ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کررہا ہے‘۔’اپنے شہریوں کی حفاظت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں‘پوتن  نے کہا کہ ’یوکرین میں روس درست سمت میں کام کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کی  زیرقیادت مغرب روس کو تنہا کرنے کے لیے کوشاں ہے‘، دوسری جانب امریکہ اس  بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ روس کے خاتمے کی سازش کر رہا ہے۔انہوں نے کہا  کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہم درست سمت میں کام کر رہے ہیں، ہم اپنے قومی مفادات،  اپنے شہریوں، اپنے لوگوں کے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں اور ہمارے پاس اپنے  شہریوں کی حفاظت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘۔مغرب کے ساتھ  جغرافیائی سیاسی تنازع خطرناک حد تک پہنچنے کے خدشے کے حوالے سے سوال پر  پوتن نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ اتنا خطرناک ہے، مغرب نے 2014 میں  یوکرین میں مظاہروں کے دوران روس نواز صدر کا تختہ الٹ کر یوکرین میں تنازع  شروع کیا تھا‘۔اس انقلاب کے فوراً بعد روس نے یوکرین سے کریمیا کا الحاق کر لیا اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند قوتوں نے مشرقی یوکرین میں  یوکرین کی مسلح افواج سے لڑنا شروع کر دیا۔
پوتن نے کہا کہ ’دراصل اس  میں بنیادی عنصر ہمارے جغرافیائی سیاسی مخالفین کی پالیسی ہے جس کا مقصد  روس کو توڑنا ہے‘۔انہوں نے یوکرین میں ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کو ایک تاریخی  لمحہ قرار دیا جب روس نے بالآخر ایک مغربی بلاک کے سامنے کھڑے ہونے کا  فیصلہ کیا جوکہ پوتن کے مطابق 1991 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد سے روس  کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یوکرین اور مغرب کا مؤقف ہے کہ پوتن کے  پاس اس سامراجی طرز کی قبضے کی جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے جس نے یوکرین میں  مصائب اور اموات کا بیج بویا ہے۔مسٹر پوتن  نے روس کو ایک ’منفرد ملک‘  قرار دیا جس کے عوام کی اکثریت اس کا دفاع کرنے کے لیے متحد ہے، ہمارے پاس  غیر معمولی لوگ ہیں، اس کی تصدیق روس کے وجود کی پوری تاریخ سے ثابت  ہے۔انہوں نے کہا کہ ’جب تک اس ملک کی 99.9 فیصد آبادی ملکی مفادات کے لیے  اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے اُس وقت تک میرے لیے اس تمام  صورتحال میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہے‘۔