
الحیات نیوز سروس
گڈا. وزارت ملنے کے بعد وزیردیپکا پانڈےاپنے مہگاواں اسمبلی کےدورےکے دوران دگھی گاؤں پہنچیں۔ جہاںعوام نے انکا زبردست خیر مقدم اور استقبال کیا۔ موقع سے آل جھارکھنڈ مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری حامد الغازی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں وزیر دیپکا پانڈے کی توجہ مرکوز کرا تے ہوئے کہا کہ جھارکھنڈ کی یہ بدقسمتی ہے کہ جو ادارے غیر منقسم بہار میں اقلیتوں کی تعلیمی و معاشی ترقی کیلئےخود مختار تھے جیسے مدرسہ بورڈ ، عربی وفارسی یونیورسٹی ،اردو اکیڈمی وغیرہ جھارکھنڈ الگ ہونے کے 24سال گزرنے کے بعد بھی اب تک ان کا یہاں قیام زیر التواء ہے۔ ان کا قیام اب تک جھارکھنڈ میں نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے جھارکھنڈ کی مسلم اقلیت اپنے آپ کو ٹھگا محسوس کررہے ہیں۔حامد غازی نے کہا کہ جھارکھنڈ میں مسلم اقلیت کے طلبہ و طالبات اور عالم و فاضل کی ڈگری رکھنے والے نوجوانوں کا حال و مستقبل تاریک ہے۔ مدرسہ بورڈ کا قیام نہ ہونے اور کسی یونیورسٹی کے تحت عالم و فاضل کے امتحانات کا انعقاد نہ کئے جانے کی وجہ سے ان کے اسناد کی دوسرے صوبوں میں کوئی حیثیت نہیں، بلکہ خود جھارکھنڈ میں بھی عالم و فاضل کی ڈگری رکھنے والوں کو کسی شعبہ میں نہیں لیا جاتا ہے۔ جھارکھنڈ کو بہار سے الگ کرنے کے بعد یہاں ہر طبقہ کو خوش حال ہونا چاہیے مگر بدقسمتی ہے کہ جو سہولیات بہار میں مسلم اقلیت کو فراہم تھیں ان سے جھارکھنڈ میں ان کو محروم کر دیا گیا اور 24 سال سے لگاتار یاد دہانی کے بعد بھی کسی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ کانگریس جے ایم ایم اور راجد کی مشترکہ سرکار سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر یہ ٹرم بھی ختم ہونے کو ہے اور جلد ہی الیکشن ہونے والاہے، اور اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ ادھر مدارس کے اساتذہ کو پینشن کی منظوری دی ہے مگر اس کے نفاذ میں جو آنا کانا ہو رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یا تو سرکار کی نیت صاف نہیں یا پھر افسران کی نیت صحیح نہیں ہے۔ مدارس کے اساتذہ کا ساتواں پے بھی پنڈنگ میں ہے۔ آخر مسلم سماج کیا کرے کس سے توقع رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی زبان پر اب یہ بات آنے لگی ہے کہ اس سے بہتر تو بہار ہی تھا، جھارکھنڈ بننے سے تو طلبہ کا حال و مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔
غازی صاحب نے مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے یونیورسٹی کا قیام اور اردو ٹیچر کی بحالی وغیرہ تقریباً تمام ہی مسلم اقلیت کے مسائل پر کھل کر بات کی۔ انھوں کہا کہ چند ماہ بچے ہیں میں دپیکا پانڈے جی سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود کے لئے جن اداروں کے قیام اور جن کاموں کو فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے ان کو آپ اپنی سطح سے دیگر وزراء اور وزیر اعلی کے سامنے رکھیں اور ان پر پریشر ڈالیں بلکہ کانگریس کے اعلی کمان راہل گاندھی وغیرہ تک یہ بات پہنچائیں کہ جھارکھنڈ میں مسلم اقلیت ان حقوق سے اب تک محروم ہے جو ان کو بہار میں حاصل تھے۔ ورنہ اس سے یہی پیغام جائے گا کہ جھارکھنڈ میں کوئی سرکار اور کوئی پارٹی مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود اور مسلم مسائل کو حل کرنے کے تعلق سے سنجیدہ اور مخلص نہیں، کسی کو ان کی فکر نہیں ہے، بس فکر صرف یہ ہے کہ مسلم اقلیت کا ووٹ ان کو کیسے ملے۔