جھارکھنڈ میں اردو صحافت

خورشید پرویز صدیقی
رابطہ :7654722418
اردو صحافت کی ابتداء ہفت روزہ جام جہاں نما سے ہوئی جس کی اشاعت کلکتہ سے 1822میں ہوئی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جھارکھنڈ میں بھی اردو صحافت کی ابتداء 1838 میں جام جہاں نما سے ہوئی۔ عشرت عظیم آبادی نے 1938ء میں جمشید پور سے اس نام کا ادبی ماہواری جاری کیا جس کی زندگی چند ماہ رہی۔ ضلع اسکول رانچی کے اردو ہیڈ مولوی الطاف حسین شاذ شروع کیا۔ اس کی عمر بھی چند ماہ رہی۔اس کے دم توڑنے کے بعد رانچی سے 1942ء میں ل م شاہداور معصوم مظفر پوری نے ماہ نامہ ’’کارواں‘‘ کا اجرا ء کیا جس کے بعد صرف چند شمارے ہی نکل سکے۔ اسکے دو سال بعد خواجہ عبد الرزاق کھڑگ پوری نے 1944میں جمشید پور سے ادبی ماہ نامہ ’’ادب ‘‘کا اجراءکیا جس کا صرف ایک شمارہ نکل سکا۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ہدایت پر اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مشہور افسانہ نگار سہیل عظیم آبادی رانچی میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے رانچی سے 1945 میں میں ’’کہانی‘‘نام سے ایک ادبی ماہ نامہ شروع کیا جس میں صرف افسانے ہوا کرتے تھے۔ اس کے صرف دو شمارے نکل سکے۔
جمشید پور سے جی ایس گل نے پندرہ روزہ ’’مشعل‘‘ اور یہیں سے ہر بنس دوست نے ماہ نامہ ’’طفل‘‘نکالا۔ ان کا سال اشاعت باوجود کوشش کے مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔’’طفل‘‘جھارکھنڈ کے علاقے سے شائع ہونے والا بچوں کا اب تک کا پہلا اور آخری رسالہ تھا۔1949میں رانچی سے ایک اور ادبی ماہ نامہ وطن مرشد ہوش اور پرویز شاہدی مشترکہ ادارت میں جاری ہو کر چند شماروں کے بعد دم توڑ گیا۔حبیب آروی نے 1951ءمیں جمشید پور سے پندرہ روزہ’’محاذو ترقی‘‘ کا اجرا ء کیاجس کے بھی چند شمارے ہی نکل سکے۔1954میں رانچی سے شمس جاوید نے ماہ نامہ ’’روشنی‘‘اور 1957میں دھنباد سے دوارکا پرساد کمل کیرانوی نے دو ماہی’’پرواز‘‘جاری کیا۔ ’’پرواز‘‘ جھارکھنڈ کا پہلا دو ماہی تھا۔دھنباد سے 1959میں قمر مخدومی اور سلیم اعظم کی ادارت میں ’’جام نو‘‘ ماہوار کا اجراءہوا۔ چند شمارے کے بعد یہ بند ہو گیا۔ 1961ءمیں اس کی اشاعت پھر شروع ہوئی لیکن چند شمارے کے بعد یہ دم توڑ گیا۔ماہ نامہ’’رحمت‘‘1960میں ریاض رشیدی کی ادارت میں دار العلوم رشیدیہ چترا سے شروع ہوا۔ یہ اس علاقے کا پہلا مذہبی رسالہ تھا۔اردو کی معروف شخصیت نادم بلخی کی ادارت میں 1961میں جھارکھنڈ کے پہلے سہ ماہی کا اجراء ڈالٹن گنج سے ہوا جس کے مالک ایم امام الدین تھے۔ اس خطے کا یہ اب تک کا سب سے معیاری ادبی رسالہ تھا جسے نادم صاحب کی وجہ سے اردو کے بڑے ناموں کا تعاون حاصل تھا۔ 1964تک زندہ رہنے کے بعد یہ رسالہ بند ہوا۔1961ہی میں ل م شاہد نے جمشید پور سے ’’روشنی ‘‘نام کا ماہ نامہ شروع کیا جس کا صرف ایک شمارہ نکل سکا۔ قدوس یحیٰ نے جمشید پور سے 1959میں اردو پندرہ روزہ اخبار ’’ہندی‘‘کے نام سے جاری کیا جو1961تک زندہ رہا۔اردو افسانہ نگاری کے معتبر دستخط غیاث احمد گدی نے جھریا دھنباد سے اپنی ادارت میں سہ ماہی’’میراث‘‘1964میں جاری کیا۔ غیاث صاحب کی وجہ سے اسے اردو کے تمام بڑے قلم کاروں کا تعاون حاصل تھالیکن چند شماروں سے زیادہ اس کی بھی زندگی نہیں تھی۔ اسی کے آس پاس غیاث صاحب کے چھوٹے بھائی اور معروف افسانہ نگار الیاس احمد گدی نے جھریا سے ’’روپ‘‘نام سے ایک قلمی ماہوار جاری کیا۔ جھارکھنڈ کا اب تک یہ پہلا اور فی الوقت آخری فلمی رسالہ بھی چند ماہ ہی زندہ رہ سکا۔ 
عارف مونگیری اور شان بھارتی کی مشترکہ ادارت میں دھنباد سے 1967 میں ماہ نامہ ’’کنول‘‘شروع ہوا جو جلد ہی بند ہو گیا۔ 1970اور 1975میں بھی اس کے چند شمارے نکلے اس کے بعد یہ ہمیشہ کے لیےخاموش ہو گیا۔ہفت روزہ’’چھوٹا ناگپور میل‘‘1967میں رانچی سے ثمر الحق صاحب کی ادارت میں جاری ہوا۔ یہ 1968 سے 1969تک کسی نہ کسی صورت زندہ رہ کر بند ہوا۔ ہزاری باغ سے 1961میں شوکت عظیم اور جلیل اشرف کی ادارت میں ماہ نامہ’’کو ہسار‘‘شروع ہوا جو سائکلو اسٹائل پر چھپتا تھا۔چند شمارے ہی نکل سکے۔ مولانا ارشد القادری نے تقریباً اسی وقت جمشید پور سے ’’جام نو‘‘نام کا ماہ نامہ شروع کیا جو اس علاقے کا دوسرا مذہبی رسالہ تھا۔
اردو کے جانے مانے شاعر سید احمد شمیم نے 1971میں ’’شاخسار‘‘نام سے ایک ادبی ماہوار کا اجراءکیا جو غالباً 1975تک نکلتا رہا۔ مشہور اردو افسانہ نگار ذکی انور نے’’الکریم‘‘ کے نام سے ادبی رسالے کا اجراءکیا جس کے 1971 سے 1975تک تین شمارے نکلے۔ اسی کے آس پاس دھنباد سے منظر سلطان نے ’’ہم عصر‘‘کے نام سے ایک ماہ نامہ جاری کیا جس کی زندگی بھی چندشمارے ہی تک رہی۔بوکارو سے ایس ایم زماں شفق نے دو ماہی’’شفق‘‘اور جمشید پور سے چودھری لئیق نے پندرہ روزہ’’تحریک نو‘‘شروع کیا۔ان کے سال اشاعت کا علم نہیں ہو سکا۔ 1976میں دھنبادسےزین الحق کی ادارت میں ہفت روزہ’’شعلہ بہار‘‘ 1978میں جمشید پور سے منیر عالم کی ادارت میںہفت روزہ صدائے حق اسی سال حسن نظامی کراچی کا پندرہ روزہ ’’بزم‘‘جمشید پور سے اور زین الحق کی ادارت میں دھنباد سے ہفتہ وار ’’سرحد بہار‘‘نکلے اور جلد ہی بند ہو گئے۔ تقریباًاس وقت جگن ناتھ پور کالج سنگھ بھوم کے اردو پروفیسر نہال احمد درانی نے دو ماہی’’احساس‘‘نکالا جس کا غالباًصرف ایک شمارہ نکل سکا۔
جھارکھنڈ سے ’’ہماری دھرتی‘‘کے نام سے بھی ایک اردو پندرہ روزہ نکالا گیا لیکن کب اور کہاں سے اس کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔ہزاری باغ سے 1980میں علی منیر اور مناظر عاشق ہرگانوی کی ادارت میں پندرہ روزہ ’’میرا قلم‘‘شروع ہو کر جلد ہی بند ہو گیا۔ اسی سال گریڈیہہ سے محبوب اکیلا نے ماہ نامہ ’’ترنگ‘‘شروع کیا۔ 1980ہی میں فخر الدین واصل کی ادارت میں ’’ہم لوگ‘‘جاری کیا۔ اسی سال حسرت وارثی نے گریڈیہہ سے ’’ہم راز‘‘نام کا رسالہ جاری کیا جو دو سال تک جاری رہالیکن اردو قارئین کی بے قدری کا شکار ہو گیا۔ 1981میں گریڈیہہ سے شمیم عالم نے’’لکیریں‘‘نام کا سہ ماہی رسالہ شروع کیا۔جس کے غالباً دو شمارے نکل سکے۔ 1981ہی میں دھنباد سے تجربہ کار صحافی اے ایچ رضوی نے روزنامہ ’’دھنباد ایکسپریس‘‘شروع کیا۔ لیکن یہ بھی اردو والوں کی بے توجہی کا شکار ہو کر خاموش ہو گیا۔ اسی سال ’’آزاد صدا‘‘ ہفت روزہ فخر الدین واصل کی ادارت میں جمشید پور سے سامنے آیا لیکن اب یہ صدا بھی خاموش ہے۔ ’’جام جمشید‘‘ نام کا بھی ایک روزنامہ جھارکھنڈ سے نکلا لیکن کب کہاں سے اور کس کی ادارت میں اس کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔ 1990ءمیں دو سہ ماہی سامنے آئے ایک مشتاق صدف اور شان بھارتی کے زیر ادارت سجووا دھنباد سے اور دوسرا انور ایرج کا ’’حصار ‘‘رانچی سے۔ ’’حصار ‘‘تو دو شماروں کے بعد بند ہو گیا لیکن ’’رنگ ‘‘اللہ کے فضل سے ابھی بھی زندہ ہے۔ 1990میں جمشید پور سے ہفت روزہ ’’صدائے ہاتف‘‘مظفر حسن نے نکالا اور اسی سال شمائل نبی صاحب نے پٹنہ سے نکلنے والے اپنے روزنامہ’’راہ رو‘‘ کا رانچی ایڈیشن شروع کیا۔ مذکورہ اخبار چند ماہ زندہ رہ کر ختم ہو گئے۔
1992جھارکھنڈ کی اردو صحافت کے لئے نہ صرف  TURNING POINT بلکہ RED LETTER DAY ہےجب مدیر ومالک ایم اے ظفر نے روزنامہ فاروقی تنظیم کی اشاعت رانچی سے شروع کی۔گزشتہ 17سالوں سے یہ اخبار مسلسل نکل رہا ہے جو جھارکھنڈ کی اردو صحافت کے لئے ایک ریکارڈ ہے۔ روزنامہ فاروقی تنظیم کو متعدد معاملا ت میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔یہ پہلا اخبار ہے جس نے جھارکھنڈ میں پہلی بار اپنا پریس قائم کیا، تازہ خبروں کے لئے خبر رساں ایجنسی یو این آئی کا اردو ٹیلی پرنٹر لیا۔1996میں فاروقی تنظیم نے رانچی سے شام کا روزنامہ شروع کیا جو ماہ دو ماہ کے بعد بند ہو گیا۔ یہ غیر منقسم بہار کا اب تک کا پہلا اور آخری شام نامہ تھا۔ فاروقی تنظیم جھارکھنڈ کا پہلا اردو اخبار ہے جس نے چار صفحات سے آگے بڑھ کر چھ ،آٹھ پھر بارہ صفحات پر نکل کر ریاستی اردو صحافت کے وقار کو بلند کیا۔ یہ اولیت بھی فاروقی تنظیم ہی کو حاصل ہے کہ اس نے خبروں کے سٹیلائٹ سے براہ راست کمپیوٹر میں جا کر صفحہ سازی کی جدید ترین تکنیک کو اپنایا۔اولیت کا یہ سہرا بھی فاروقی تنظیم ہی کے سر ہے کہ اس نے جھارکھنڈ کی اردو صحافت میں پہلی بار اپنا ملٹی کلر آفسیٹ پریس لگایا۔ اور اپنے دفتر کے لئے عمارت بنائی۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فاروقی تنظیم جھارکھنڈ کا پہلا اردو اخبار ہے جس نے پٹنہ اور دہلی سے اپنے ایڈیشن شروع کئے جو کامیابی کے ساتھ نکل رہے ہیں ۔ دوسری ریاستوں کے اخبارات رانچی سے اپنے ایڈیشن نکال رہے ہیں جبکہ فاروقی تنظیم دوسری ریاستوں سے اپنے ایڈیشن نکال رہا ہے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ سچائی ہے کہ روزنامہ فاروقی تنظیم نے جھارکھنڈ میں اردو صحافت کی روایت نہ صرف قائم کی بلکہ اسے اتنا مستحکم کیا جس کی وجہ سے آج دوسرے اردو اخبارات رانچی سے نکل رہے ہیں۔ فی الوقت رانچی سےروزنامہ قومی تنظیم،روزنامہ الحیات، روزنامہ عوامی نیوز،روزنامہ سیاسی افق، روزنامہ اخبار مشرق، جمہوریت ٹائمز، جدید بھارت، تنعیم نیوزخبر ایکسپریس ،اعلان جھارکھنڈ اور تاثیر سمیت ایک درجن سے زائد روزنامے شائع ہو رہے ہیں۔سبھی اخبارات نےسوشل میڈیا کا سہار الیتے ہوئے پی ڈی ایف فائل، ای پیپرشروع کیا ہے ۔ جبکہ روزنامہ الحیات نے پی ڈی ایف فائل، ای پیپر کے علاوہ جھارکھنڈ کی پہلی اردو ویب سائٹ بھی 2019میں آغاز کیا جو کامیابی کے ساتھ تازہ ترین خبروں کی وجہ سے کافی مقبول ہے۔1996میں جاوید احمد خان کی ادارت میں جمشید پور سے ایک خوبصورت ہفت روزہ’’اس دور کا انقلاب‘‘نکالاجس کی زندگی بھی مختصر ثابت ہوئی۔ 1998میں رانچی سے سہ ماہی ’’عہدنامہ ‘‘شمیم عنبر کی ادارت اور ڈاکٹر سرور ساجد کے زیر تربیت شروع ہوا جس نے جلد ہی ادبی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس رسالے کو ملک و بیرون ملک کے قارئین اور قلم کاروں کا تعاون حاصل ہے۔ لیکن ادھر اس کی اشاعت مستقل نہیں ہو رہی ہے۔ 1999میں جمشید پور سے ممتاز شارق کی ادارت میں پندرہ روزہ’’آغاز و کاروبار‘‘کا اجراء ہوا۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ریاست کا پہلا رسالہ تھا۔ جمشید پور سے سال2000میں سہ ماہی ’’عبارت‘‘حسن نظامی کیراپی کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس نے اردو اخبارات و رسائل کے مقابلے میں خاصی عمر پائی اور 2008میں بند ہوا۔ 2004میں رانچی سے ہفت روزہ’’صدائے جھارکھنڈ‘‘نکل کر چند ماہ بعد بند ہوا۔اسی سال جامعۃ النساء جمشید پور کا ترجمان ماہ نامہ’’النساء‘‘جمشید پور سے نور الزماں خان کی ادارت میں جاری ہوا لیکن افسوس صرف ایک شمارے کے بعد بند ہو گیا۔ مئی2005میں جھارکھنڈ کے دور دراز کے علاقے جام تاڑا سے نیم ادبی و نیم مذہبی ماہ نامہ’’رخت سفر‘‘ڈاکٹر نصیر الدین عمری کی ادارت میں شروع ہوا۔ کہنے کو تو یہ ماہ نامہ ہے لیکن اشاعت سہ ماہی ہے۔۔ مولانا آزاد ریسرچ اینڈ اسٹڈی سرکل کا ترجمان’’جہان آزاد‘‘بھی ڈاکٹر جمشید قمر کی ادارت میں گاہے گاہے نکلتا ہے۔آئینہ نام کا بھی ایک ماہوار جھارکھنڈ سے جاری ہوا لیکن کب کہاں سے اور کس کی ادارت میں اس کا علم مجھے نہیں ہو سکا۔ہزاری باغ سے ڈاکٹر جلیل اشرف کی ادارت میں اردو سہ ماہی افق ادب کی اشاعت 2012میں شروع ہوئی۔یہ رسالہ پوری کامیابی کے ساتھ شائع ہو تا رہا۔اس کے چیف ایڈیٹر جلیل اشرف  کے ساتھ مدیر کے طور پر علی منیر اور معاون مدیر کے حیثیت سے ڈاکٹر وکیل احمد رضوی نے کام کیا ۔جلیل اشر ف کے انتقال کے بعد اس کے چیف ایڈیٹر علی منیر اور ایڈیٹر وکیل احمد رضوی رہے لیکن علی منیر کے انتقال کے بعد جلیل اشرف مرحوم کی بیٹی منشا خورشید اور افشا خورشید نے اس کی اشاعت کو ایک اخباری نوٹس کے ذریعے بند کرا دیا۔ واضح ہو کہ اس ادبی رسالہ کو ڈاکٹر جلیل اشرف نے اپنی اہلیہ مرحومہ خورشید جہاں کی یاد میں جاری کیا تھا جو ونوبا بھاوی یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی پہلی صد ر تھیں ۔2013 میں بائی لنگول (اردو/ہندی) میں جمہوریت ٹائمس رانچی سے شاہد پرویز نے نکالاجس کے ایڈیٹر مظفر حسن تھے ۔ مگر چند تکنیکی وجوہات کی وجہ سے تقریباً دو سال کے بعد یہ اخبار بند ہوگیا۔ 
میں نے6درجن سے زائد اخبارات و رسائل کا ذکر اپنے مضمون میں کیا ہے لیکن اس فہرست کو مکمل کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔