اردو صحافت اور نئے تقاضے

مجیب الرحمٰن ،جامتاڑا، جھارکھنڈ
رابطہ : 7061674542
اردو صحافت کے بارے میں اکثر بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہوکر کہ دیا جاتا ہے کہ آج یہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے، یہ سچ ہے کہ بہت ترقی کر لی گئی ہے، لیتھو پریس کی جگہ آفسیٹ پریس آگئے ہیں کتابت کے بجائے کمپیوٹر کمیونزم ہورہی ہے، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا بھی استعمال ہر جگہ ہو رہا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اردو صحافت کو زمانہ سے ہم آہنگ کرنا ہے تو سب سے ضروری ہو گا کہ پہلے طرز فکر کو بدلا جائے۔ یہ خیال اب درست نہیں کہ صحافت محض خسارہ کا سودا ہے یہ بھی ٹھیک نہیں کہ صحافت کو محض خدمت خلق یا مشن ہی تک محدود رکھا جائے۔ اب یہ یقین کرنا پڑیگا کہ صحافت ایک صنعت ہے اور صنعت بھی ایسی جسمیں خسارہ نہیں بلکہ منافع ہو سکتا ہے۔
جو اردو صحافت کو صنعت کا درجہ دیکر اس سے صنعتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اچھے سے اچھے باصلاحیت اور باوقار لوگ زیادہ سے زیادہ تنخواہ دیکر اپنے اخبار میں لائیں اور انہیں مکمل آزادی دیں کہ وہ جس طرح معیاری بنا سکتے ہیں بنائیں، ان کو اخبار کی پالیسی بتادینے کے بعد کسی قسم کی مداخلت نہ ہو تو پھر آج بھی اردو اخبارات کو باصلاحیت عملہ مل سکتا ہے اور یہ عملہ کسی بھی اخبار کو کامیاب کرسکتا ہے، ایسے میں اردو صحافت وقت سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے، انتظامی امور میں اصلاح کے علاوہ اخبار میں کام کرنے والوں کی صلاحیت بڑھانے کیلئے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ آج بھی اردو اخبارات میں کام کرنے والوں کو ڈھنگ کی خبر بنانے کا شعور نہیں، خبر اور مضمون میں عموماً تمیز نہیں کی جاتی اکثر اخبارات خبر کو مضمون بنادیتے ہیں جبکہ اکثر خبریں طوالت کے سبب مضمون بن جاتی ہیں۔
ایک کامیاب مدیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قارئین کو آچھی طرح جانتا ہو اسے ان کی توقعات، خواہشات اور ضروریات کا اچھی طرح علم ہو اور وہ اپنے اخبار کے ذریعہ قارئین کو مطمئن کرنے کی کوشش میں اس طرح منہمک رہے وہ ان کے معیار کو نہ اپنائے بلکہ اپنے معیار سے اس کو متاثر کرے اس کو اپنانے کیلئے آمادہ کرے، مثلاً کہ لوگ عام فہم اور سلیس زبان کے خواہاں ہوتے ہیں تو، یقیناً عام فہم اور سلیس شستہ اور رواں زبان کا استعمال کرنا چاہئے لیکن یہ زبان اتنی عام نہ ہو کہ بالکل بازاری بن جائے، بہت پست طبقات کے لوگوں کی زبان استعمال کی جانے لگے، یا بلاضرورت دوسری زبانوں کے الفاظ استعمال کئے جائیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔متذکرہ باتیں اگر ذہن میں رہے تو اخبار کی وقعت بڑھ جاتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ لینے لگتے ہیں۔
اردو صحافت میں آج بھی لوگ اوقاف و رموز میں غلطی کرتے ہیں اور اس کو ضروری نہیں سمجھتے جبکہ صحافت میں اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اس کا لحاظ نہ کرنے پر جملہ کچھ کا کچھ پڑھ لیا جاتا ہے معنی بدل جاتے ہیں، مفہوم ادھورا رہتا ہے، نشان استفہامیہ نشان استعجابیہ اور نشان سوالیہ؟کا بھی خیال نہ کرنے سے عیب پیدا ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر۔ ایک سرخی لکھی گئی کہ کرینہ سیف کے ساتھ مل کر یوگا اسکول قائم کریں گی۔ اب اگر اس میں کرینہ کے بعد کاما(؛) نہ لگایا گیا تو کرینہ سیف ایک نام سمجھا جائے گا اور عبارت ناقص ہوگی، اگر سوال ہے تو سوالیہ نشان لگایا جانا چاہیے اور اگر حیرت کی بات ہے تو!(!) نشان ہونا چاہیے۔اردو اخبارات میں خبر کی سرخی دوسری زبان کی سرخیوں سے کہیں زیادہ اہم ہوا کرتی ہے، اسی لئے سرخی میں مہارت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
الفاظ کا استعمال اور ان کی نشست میں جتنی مہارت دکھائ جاتی ہے خبر اتنی ہی وقیع اور اخبار معیاری بنتا ہے۔ آج کے اخبارات کا بڑا عیب یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر سرخیاں بس ضرورتا ہوتی ہیں یہ کوشش نہیں ہوتی کہ اس طرح سرخی دی جائے کہ پڑھنے والا اگر پوری خبر نہ پڑھ سکے تب بھی سمجھ جائے کہ اسمیں کیا ہوگا اور اگر خبر طویل ہے تو اس کی سرخی ایسی ہونی چاہیے کہ پڑھنے والا پوری خبر پڑھنے پر مجبور ہو اور جب پڑھے تو یقین کرے کہ اگر ایسی سرخی نہ ہوتی تو وہ پوری خبر ہر گز نہ پڑھتا۔اگر اردو اخبارات میں پیرا گراف کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی۔ جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اس کی ضرورت کب اور کیوں ہوتی ہے، اکثر بات دو ایک جملوں میں پوری ہو جاتی ہے مگر بعض لوگ اس کے ساتھ دوسری عبارت جوڑ دیتے ہیں کہ انہیں چند جملوں پر منحصر پیرا گراف کچھ عجیب سا لگتا ہے جبکہ اصول یہ ہے کہ بات پوری ہو جائے تو دوسری بات شروع کی جائے ایسا نہ کرنے اور پیراگراف نہ بنانے سے عبارت گنجلک ہو جاتی ہے پڑھنے والوں کو الجھن ہوتی ہے۔ کہاں سے شروع کریں کہاں ختم کریں۔ پیراگراف ہوتے ہیں تو ہر ایک خوشی سے پوری عبارت پڑھ لیتا ہے، اسے کوئی الجھن نہیں ہوتی کہ جب وہ کسی وجہ سے مجبوراً پڑھنا چھوڑتا ہے پیراگراف پر چھوڑ دیتا ہے کہ جب پڑھنا شروع کریں تو نئے پیراگراف سے آسانی سے شروع کر سکتا ہے۔
ہماری صحافت ابھی کافی پسماندہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اہم امور پر خصوصی توجہ نہیں دی جاتی ہے قوسین میں کیا ہونا چاہیے واوین کہاں استعمال ہونا چاہیے سرخی میں جس مشاقی کی ضرورت ہے اس سے عموماً گریز کیا جاتا ہے مروجہ عام طریقہ ہی رائج ہے کسی نے کوئی بات کہی بس اس کی بات کو پہلی سرخی بنا کر دوسری سطر میں لکھ دیا کہ کس نے کہی۔ چلو سرخی ہو گئ بات اس قابل بھی ہے کہ نہیں کہ اسے سرخی بنایا جائے یہ بھی نہیں دیکھا جاتا مطلب سرخی بناکر کام چلانا ھوتا ھے۔ جبکہ بہتر صحافت کیلئے سرخی پر توجہ دینا ضروری ہوا کرتا ہے۔سرخی کو توڑ دینا بہت بڑا عیب ہے لیکن عموماً اردو روزناموں میں یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ جبکہ سرخی کی ہر سطر اپنی جگہ مکمل ہونا چاہیے اور ہر سطر میں کوئی خاص بات ہونا چاہیے جس کو نمایاں کرنا ہی مقصود ہو، اکثر لوگوں کی کہی ہوئی بات کو بغیر واوین کے لکھ دیا جاتا ہے جس سے شروع میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ بات کس کی کہی ہوئی ہے۔املاء درست نہ ہونا ایک عام سی بیماری ہے ایک ہی خبر میں مختلف املاء استعمال کیا جاتا ہے۔تذکیر و تانیث کا لحاظ نہیں ہونا جس سے اخبار کا معیار پست ہوجاتا ہے۔ کہیں ہندوستان واو کے ساتھ لکھا جاتا ہے تو کہیں بغیر واؤ کے۔ لفظ عوام کو کہیں مذکر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو کہیں مؤنث سمجھا جاتا ہے یہ سب وہ باتیں ہیں جو صرف لاپرواہی اور سہولت پسندی کی باتیں ہیں، اگر طے کرلیا جائے کہ اخبار میں کون لفظ کس طرح استعمال کیا جائے اس کا املاء کیا ہونا چاہیے اس کی تانیث کیا رہیگی تو اخبار کا معیار بلند رہیگا اور عوام قارئین کو اخبار سیکھنے کا موقع بھی ملیگا۔اردو اخبارات کو اپنے حلقہ اثر کو وسیع کرنے کیلئے حالات حاضرہ پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے اس میں اخبار کو جہاں تمام سیاسی رہنماؤں کے خیالات دینا چاہیے تو وہیں قارئین سے اپیل بھی کرنا چاہیے کہ وہ بھی اپنی رائے کھل کر اظہار کریں اسے شائع کیا جائے گا، اس کے علاوہ عوام سے رأئے بھی لی جانا چاہیے جس کو شمار کرکے بتانا چاہیے کہ اتنے قارئین کا خیال ہے اور اتنے اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں اس طرح کی باتوں سے عوامی دلچسپی بڑھتی ہے تو اخبار کی اہمیت بھی ہر طبقہ میں بڑھتی ہے۔
اخیر میں عرض ہے کہ اردو اخبارات کو صرف مسلمانوں ہی کا اخبار بنانا کوئی مفید بات نہیں ہے وسعت نظری اور وسعت قلبی کی سخت ضرورت ہے، جہاں مسلمانوں سے متعلق مذہبی معلومات دی جائیں تو ہندوؤں سکھوں اور دوسرے مذاھب سے متعلق لوگوں کے مذہبی عقائد اور تقریبات پر بھی خبریں۔ تصاویر اور مضامین کو دیا جانا چاہیے، تاکہ سبھی مذاہب کے لوگ اردو اخبارات کی طرف ملتفت ہوں اگر کوئی زبان سے واقف نہ ہوں گے تب بھی تصویر دیکھ کر متوجہ ہوںگے اور لوگوں سے معلوم کریں گے کہ یہ تصویر کیوں دی گئی ہے کیا لکھا گیا ہے، اس سے بہت سے لوگ اردو سیکھنے کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں اور جاننے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے،یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر اب تک اردو اخبارات نے توجہ نہیں دی اسی لئے وہ نہ مقبولیت حاصل کر سکے اور نہ اس کا قومی اخبارات میں شمار ہو سکا۔
(نوٹ) اس تحریر میں۔ ماہنامہ لکھنؤ۔ سے بھی مدد لی گئی ہے۔