وقف ترمیمی قانون کلی طور پر غیر آئینی، غیر جمہوری اورمسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے والاہے: محمد فضل الرحیم مجددی

نئی دہلی، 29اپریل (یو این آئی) وقف ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کو تیز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہاکہ یہ ایکٹ کلی طور پر غیر قانونی، غیر آئینی، غیر جمہوری ہے، یہ ایکٹ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے والاہے۔گزشتہ روز پربھنی میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ موجودہ وقف ترمیمی ایکٹ جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ نے اس کی ۲/ دفعات پر عبوری پابندی لگائی ہے، ہمیں سپریم کورٹ کے تبصرے اور عبوری پابندی سے امید تو جگی ہے لیکن اس ایکٹ کی مکمل واپسی تک ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا ہے، کیونکہ یہ ایکٹ کلی طور پر غیر قانونی، غیر آئینی، غیر جمہوری ہے، یہ ایکٹ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے والاہے۔ ابھی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں جو جواب داخل کیا ہے،وہ بھی فریب اور دھوکہ پر مبنی ہے، مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ عدالت عظمی کو وقف ایکٹ کے خلاف مقدمہ کی سماعت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ عدالت کو پارلیمنٹ سے پاس قانون کے صرف آئینی تجزیہ کا حق ہے، جب کہ آئین ہند کا آرٹیکل ۳۱ کی شق ۲ / میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ پارلیمنٹ ایسا کوئی قانون نہیں بنائے گا جو کسی کے بنیادی حقوق کو چھینتا ہو یا کم کرتا ہو، یہ آرٹیکل ۴۱ / آرٹیکل ۵۱/ آرٹیکل ۵۲/ آرٹیکل ۶۲/ اور آرٹیکل ۹۲ کے خلاف ہے، یہ مسلمانوں کے بنیادی آئینی حقوق کو چھیننے والا ایکٹ ہے، یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو کم کرنے والا ایکٹ ہے، اس لئے سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب بھی پارلیمنٹ سے ایسا کوئی قانون پاس ہوجو دستور ہند میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو تو عدالت عظمی اس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر خارج کر سکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ اسی طرح سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وقف کا معاملہ صرف زمین و جائداد کے انتظام کا مسئلہ ہے، یہ بھی ایک جھوٹ ہے،فریب ہے، پارلیمنٹ میں بھی حکومت نے یہ بات کہی تھی اور اب سپریم کورٹ میں بھی اپنے جواب میں اس نے یہ بات کہی ہے، وقف کا مسئلہ مسلمانوں کا خالص مذہبی معاملہ ہے،اس کا تعلق مسلمانوں کے مذہب و عقیدہ سے ہے،ہم سب کو اپنے خطابات اور گفتگومیں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو وقف کی شرعی اہمیت اور اس کی اسلامی تاریخ کو بتانا ہوگا تاکہ لوگ غلط فہمی کے شکار نہ ہوں۔
 شریعت اسلامی میں غریبوں، مسکینوں، مسافروں، ناداروں، یتیموں اور بیواؤں پر مال خرچ کرنے اور ان کی کفالت کرنے اور خیر کے کاموں میں اپنے مال و دولت کو خرچ کرنے کی بار بار ترغیب دی گئی ہے،اور اللہ کے راستے میں مال و دولت خرچ کرنے کو سراہا گیا ہے، بلکہ قرآن کریم میں اپنی سب سے محبوب اور پسندیدہ دولت کو اللہ کے راستہ میں اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کونیکی کا معیار قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اسلام میں پہلا وقف خود حضور اکرم ﷺ نے کیا، جب حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت سہلؓ اور حضرت سہیلؓ کا باغ خریدا اور اس میں مسجد نبوی کی تعمیر کروائی اور اسی سے متصل صفہ یعنی پہلی اسلامی یونیورسٹی بنوائی، تو مسجد نبوی اور پہلی اسلامک یونیورسٹی صفہ حضور اکرم ﷺ کی وقف کی ہوئی زمین پرتعمیر ہوئی، اسی طرح مُخَیرِیق نامی یہودی جو جنگ احد میں مسلمانوں کی طرف سے شریک ہوئے تھے، اس نے اپنے سات باغات مرنے سے پہلے یہ کہہ کر حضور اکرم ﷺ کے سپرد کر دیئے تھے کہ آپﷺ جیسے چاہیں تصرف کریں تو اللہ کے رسول ﷺ نے وہ ساتوں باغ اللہ کے راستے میں وقف کر دیئے تھے۔مولانا مجددی نے کہاکہ حکومت وقف کے خلاف ایک جھوٹا بیانیہ اور Narative قائم کرنے کی ہمیشہ سے کوشش کرتی رہی ہے اور اس کے لئے بے شرمی کے ساتھ ہر جگہ جھوٹ بولتی رہی ہے، ہمیں اس جھوٹ کو سب کے سامنے بار بار واضح کرنا ہوگا، مثلا دہلی کی۳۲۱/ وقف جائداد کو لے کر بر سر اقتدار پارٹی ہمیشہ سے پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب انگریزوں نے لوٹین زون بنانے کا پلان تیار کیا اور اس کے لیئے زمین اکوائر کی گئی تو اس میں یہ ۳۲۱ / مساجد وغیرہ کی بھی جائدادیں تھیں جو وقف کی تھیں جسے وقف بورڈ کے حوالہ کرنا تھا، سچر کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ان ۳۲۱ جائداد پر حکومت کا قبضہ ناجائز ہے اسے وقف بورڈ کو واپس کر دینا چاہئے، اب اس معاملہ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا کہ کسی سرکاری زمین کو وقف بورڈ کو دینے کی بات ہو رہی ہے، لہذا ہمیں ہر جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی حقیقت لوگوں کے سامنے ہر پلیٹ فارم سے بولنا ہوگا اور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنا ہوگا۔