پاکستانیوں کو ہندوستان چھوڑنے کیلئے ملا ہے 48 گھنٹے کا وقت، اٹاری بارڈر پر افرا تفری کا ماحول

    نئی دہلی،24؍اپریلذ(ایجنسی) پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستانی حکومت نے پاکستان کے خلاف 5 سخت اقدام اٹھائے ہیں۔ ان میں اٹاری بارڈر بند کرنا اور پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ہندوستان چھوڑنے کا حکم بھی شامل ہے۔ حکومت کے فیصلے کے بعد سے ہی ہندوستان میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے ملک واپس جانے کی فکر ستانے لگی ہے۔ فوج نے اٹاری بارڈر پر انٹیگریٹیڈ چیک پوسٹ کو بند کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اٹاری بارڈر ایک واحد زمینی راستہ ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت ہوتی ہے۔ ہندوستان اس راستے سے پاکستان کو سویابین، مرغے کا دانہ، سبزیاں، پلاسٹک کے دانے، پلاسٹک کا دھاگہ اور لال مرچ جیسی چیزیں برآمد کر رہا ہے۔ اٹاری، جو امرتسر سے صرف 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ہندوستان کا پہلا لینڈ پورٹ (زمینی بندرگاہ) ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارت کا واحد زمینی راستہ ہے۔ یہ پورٹ 120 ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے اور براہ راست نیشنل ہائی وے-1 سے منسلک ہے۔اٹاری چیک پوسٹ نہ صرف ہندوستان-پاکستان تجارت میں، بلکہ افغانستان سے آنے والی اشیاء کی درآمد میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اٹاری-واگھہ کوریڈور سے ہر سال تجارت اور مسافرین کی آمد و رفت میں کمی و بیشی دیکھنے کو ملی ہے۔ 24-2023 میں اس پورٹ سے 6871 مال بردار گاڑیاں گزریں اور 71563 لوگوں نے اس راستے سے سفر کیا۔ اس دوران کُل 3886.53 کروڑ روپے کی تجارت ہوئی۔ پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان میں خشک میوے، خشک کھجور، جِپسم، سیمنٹ، شیشہ، سیندھا نمک اور طرح طرح کی جڑی-بوٹیاں درآمد ہوتی ہیں۔ اب اس پورٹ کے بند ہونے سے ان چیزوں کی تجارت پر اثر پڑے گا۔اٹاری چیک پوسٹ بند کیے جانے کے فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے چھوٹے تاجروں کو ہوگا۔ ساتھ ہی ان صنعتوں پر بھی اثر پڑے گا جو روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی تجارت کے لیے ہندوستان پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی درآمدات و برآمدات بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے کئی سامان پاکستان سے ہو کر اسی راستے سے آتے جاتے ہیں۔ اب اس راستے کے بند ہونے سے سامان پہنچانے میں کافی دقتیں پیش آ سکتی ہیں، جس کی وجہ سے نقل و حمل سے متعلق معاملے میں کافی پریشانیوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔کراچی سے ہندوستان آئے ایک کنبہ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہا کہ 45 دنوں کے ویزے پر ہندوستان آئے تھے لیکن اب دکھ اور مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان سے جب پہلگام حملے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو ان لوگوں نے کہا کہ جو ہوا غلط ہوا لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ کس نے کیا یا کس کے کہنے پر ہوا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے رہیں، نفرت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
 وہیں ایک خاتون، جس کی شادی پاکستان میں ہوئی ہے، نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ میری شادی پاکستان میں ہوئی ہے اس وجہ سے ہندوستان آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ہم تو صرف رشتوں کو نبھانے آئے تھے، اب جو ہوا اس کا ہمیں دکھ ہے لیکن اس پر کچھ کہہ نہیں سکتے۔اٹاری بارڈر کے بند ہونے سے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے لوگ جنہیں پاکستان میں رہ رہے اپنے رشتہ داروں کے یہاں شادی یا ان کے احوال کی خبر گیری کے لیے جانا تھا، انہیں بھی بی ایس ایف کے ذریعہ واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اٹاری بارڈر پر کچھ ایسے ہندوستانی بھی تھے جو مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے پاکستان گئے تھے، لیکن بارڈر کے بند ہونے کی اطلاع ملنے کے بعد وہ اپنے سفر کو ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹ رہے ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ اٹاری بارڈر کے بند ہونے سے دونوں ممالک کے لوگ کافی پریشان نظر آ رہے ہیں۔