وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل عرضی پر سپریم کورٹ میں 16اپریل کو سماعت

وقف قانون آئین ، سیکولرازم اورملک کے امن واتحادکے لئے ایک بڑاخطرہ :مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی،8  اپریل (یو این آئی) مرکزی حکومت کی جانب سے منظورکئے گئے وقف ترمیمی قانون2025 کے خلاف  جمعیۃ علماء ہند داخل کردہ عرضی پر 16 اپریل کو سپریم کورٹ سماعت کرے گی۔ یہ اطلاع جمعیۃ علماء ہند کی آج جاری کردہ ریلیز میں دی گئی ہے۔ریلیز کے مطابق گذشتہ پیر کو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ وکیل کپل سبل نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل عرضی  پر جلداز جلد سماعت کیئے جانے کی چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے گذارش کی تھی ، چیف جسٹس نے کپل سبل کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جلدہی اس کے لئے تاریخ متعین کریں گے ۔ رجسٹرار کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کو دی گئی اطلاع کے مطابق مولانا ارشد مدنی کی جانب سے داخل پٹیشن پر سپریم کورٹ 16؍ اپریل کو سماعت کرے گی۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اسے امید افزا پیش رفت قراردیتے ہوئے آج اپنے ایک اہم بیان میں کہاہے کہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ اس ہم معاملہ میں عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا، کیونکہ اس قانون کی بہت سی دفعات نہ صرف ملک کی آئین سے متصادم ہیں بلکہ ان سے شہریوں کی بنیادی اورمذہبی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد سے ملک بھرکے مسلمانوں میں زبردست ہیجان اورغم وغصہ پایاجاتاہے ، کیونکہ جس طرح اپوزیشن کے اعتراضات اورمشورہ کو نظراندازکرکے جبرایہ قانون لایا گیا ہے اس بات کا شدیدخدشہ پیدا ہو چلاہے کہ اب وقف املاک سے نہ صرف چھیڑچھاڑہوسکتی ہے بلکہ اس قانون کی آڑمیں مسلمانوں کو ان کے اس عظیم ورثہ سے بھی محروم کیا جاسکتا ہے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون کی بعض دفعات کے مطالعہ سے صاف پتہ چلتاہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے ،اور یہ قانون مسلمانوں کی فلاح وبہبود یا وقف امورمیں شفافیت لانے کے لئے نہیں بنایاگیاہے ، بلکہ وقف املاک پر قبضہ کرنے کے لئے ہی یہ قانون سازی ہوئی ہے ۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف پورے ملک میں تنازعات کا ایک نیا محاذ کھل سکتاہے ، بلکہ اس کا فائدہ اٹھاکر فرقہ پرست طاقتیں ملک کے امن واتحادمیں بھی آگ لگاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون ایسے وقت میں لایا گیا ہے جب پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آندھی چل رہی ہے ، ہماری بہت سی مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جاچکاہے ، وہاں مندرہونے کے دعویٰ کئے جارہے ہیں ، چنانچہ اگر ان حالات میں یہ غیر آئینی قانون بھی نافذ ہوگیا توپھر ان بے لگام فرقہ پرست طاقتوں کو ہماری عبادت گاہوں، خانقاہوں ، قبرستانوں اورامام باڑگاہوں کو نشانہ بنانے کا قانونی جوازبھی مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر امید ہیں کہ آئندہ 16اپریل کو اس پر ایک مثبت بحث ہوگی اورہمارے وکلاء اس قانون کی ممکنہ تباہ کاریوں کے بارے میں عدالت کو قائل کرنے میں کامیاب رہیں گے کیونکہ یہ قانون غیر آئینی ہی نہیں ملک کے سیکولرازم اورامن واتحادکے لئے بھی ایک بڑاخطرہ ہے ۔لیکن ابھی یہ واضح نہیں کیا گیا کن ججوں پر مشتمل بینچ اس مقدمہ کی سماعت کریگی۔(باقی صفحہ 7پر)