برطانیہ کے نئے وزیر اعظم پر ہندوستان میں سیاست گرم، ٹوئٹر پر ٹرینڈ ہوا ’مسلم پی ایم‘

لندن،25؍اکتوبر(ایجنسی)رشی سنک برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ سنک پہلے برطانوی ہندنژاد وزیر اعظم ہیں۔ برطانیا کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے روڈ میپ 2030 کے تحت برطانیہ کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سنک کے ہندوستانی نژاد ہونے کے ناطے انہیں ملک بھر سے مبارکباد دی جا رہی ہے۔ وہیں ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان میں سیاست گرم ہو گئی ہے اور ٹوئٹر پر ’مسلم پی ایم‘ ٹرینڈ ہو رہا ہے۔دراصل،برٹش میوزیم کے صدر جارج اوسبورن نے رشی سنک کے وزیر اعظم بننے کے بارے میں ایک ٹوئٹ کیا۔ انہوں نے کہا، "دن کے اختتام تک رشی سنک وزیر اعظم ہوں گے۔ میری طرح کئی لوگوں کو محسوس ہوتا ہوگا کہ وہ ہمارے مسائل کا حل کریں گے۔ دوسروں کو لگتا ہے کہ وہ مسائل کا حصہ ہیں لیکن آپ کی سیاست کچھ بھی ہو۔ آئیے ہم سبھی پہلے برطانوی ایشیائی وزیر اعظم منتخب ہونے کا جشن منائیں اور اپنے ملک پر فخر کریں جہاں ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘اس کے جواب میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے لکھا’’اگر ایسا ہوتا ہے تو، میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ برطانویوں نے دنیا میں ایک بہت ہی نایاب کام کرتے ہوئے اقلیتی برادری کے ایک رکن کو اپنا سب سے طاقتور عہدہ دے دیا۔ ہم ہندوستانی رشی سنک کے لئے جشن مناتے ہیں۔ آئیے ایمانداری سے پوچھیں؛ کیا ایسا یہاں (ہندوستانا میں) ہوسکتا ہے؟‘‘دریں اثنا، ملک کے سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بھی رشی سنک کو لے کر بیان دیا ہے۔ چدمبرم نے امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور اب رشی سنک کے بارے میں ٹوئٹ کر کے ہندوستان میں اقلیت اور اکثریت پر بحث شروع کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ’’پہلے کملا ہیرس، اب رشی سنک۔ امریکہ اور برطانیہ کے عوام نے اپنے ملک کے غیر اکثریتی شہریوں کو گلے لگایا اور انہیں حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر منتخب کیا۔‘‘پی چدمبرم نے کہا، "میرے خیال میں ہندوستان اور اکثریتی جماعتوں کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔" دراصل، کملا ہیرس اور رشی سنک دونوں ہندوستانی نژاد ہیں اور وہ عیسائی اکثریتی ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یعنی انہیں برطانیہ اور امریکہ کے عوام نے منتخب کیا ہے، اس کے ساتھ ہیریس اور سنک دونوں کا تعلق وہاں کے اقلیتی طبقہ سے ہے۔واضح رہے کی کہ ہندوستانی نژاد رشی سنک برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بن کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بننے کو لے کر ہندوستان میں جو بحث ہو رہی ہے اس میں جہاں ایک طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس سے ہندوستان کو سیکھ لینے کی ضرورت ہے تو وہیں دوسرا طبقہ جواب میں کہہ رہا ہے کہ ہندوستان میں تین صدور، ایک ویزیر اعظم اور چیف جسٹس اقلیتی طبقہ سے رہے ہیں۔ دونوں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن یہ سوال اس وقت کیا جا رہا ہے کہ جب مرکز میں نہ تو کوئی وزیر مسلم اقلیت سے ہے اور نہ ہی کوئی رکن پارلیمنٹ۔