طالبان نے اپنے سخت ناقد پروفیسر فیض اللہ جلال کو رہا کردیا

افغانستان کے معروف پروفیسر فیض اللہ جلال کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کی اطلاع دی ہے۔ طالبان نے پروفیسر جلال کو "عوام کو بھڑکانے " کے الزا م میں ہفتے کے روز کابل سے گرفتار کر لیا تھا۔پروفیسرفیض اللہ جلال کو ٹوئٹرپر مبینہ اشتعال انگیز بیانات دینے کے الزام میں طالبان نے ہفتے کے روز کابل سے حراست میں لے لیا تھا۔ انہیں بعد میں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔پروفیسر فیض اللہ جلال کی بیٹی حسینہ جلال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں اپنے والد کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا،"میں تصدیق کرتی ہوں کہ پروفیسر جلال کو بے بنیاد الزامات پر چار دن سے زیادہ حراست میں رکھنے کے بعد اب بالآخر رہا کر دیا گیا ہے۔"حسینہ جلال واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی فیلو ہیں اور انہوں نے اپنے والد کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم شروع کی تھی۔پروفیسر فیض اللہ جلال کی اہلیہ مسعودہ جلال نے ہفتے کے روز فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ عسکریت پسند گروپ طالبان ان کے شوہر کو گھر سے اٹھاکر لے گئے اور "کسی نامعلوم مقام پر منتقل" کردیا ہے۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ کرکے بتایا تھا کہ فیض اللہ جلال نے سوشل میڈیا پر بیانات دیے ہیں جس میں "وہ عوام کو موجودہ نظام کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام کے وقار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔"ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے تاکہ دوسرے لوگ ایسے بے بنیاد بیانات نہ دیں، جس سے دوسروں کی ساکھ متاثر ہو۔دوسری طرف پروفیسر جلال کے خاندان کا کہنا تھا کہ طالبان نے جس ٹوئٹر اکاونٹ کا حوالہ دیا ہے وہ پروفیسر فیض اللہ کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک جعلی اکاونٹ ہے۔حسینہ جلال کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے 5جنوری کو ٹوئٹر سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ ان کے والد اس پلیٹ فارم پر کبھی بھی سرگرم نہیں رہے ہیں۔پروفیسر فیض اللہ جلال کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی مختلف حلقوں سے ان کی حمایت میں آوازیں بلند ہونے لگی تھیں۔ متعدد افراد نے گرفتاری کی مذمت اور ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔پروفیسر جلا ل افغانستان کی قیادت کے سخت ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں سابق صدور حامد کرزائی اور اشرف غنی کی پالیسیو ں کی بھی نکتہ چینی کی تھی۔ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔نومبر میں ایک لائیو ٹی وی شو کے دوران پروفیسر جلال طالبان کے ترجمان محمد نعیم سے الجھ پڑے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پالیسیوں کی سخت نکتہ چینی کرنے کے علاوہ محمد نعیم کو "بچھڑا" کہہ دیا تھا۔ افغانستان میں اسے انتہائی بدتمیزی سمجھا جاتا ہے۔ٹی وی کے کلپس کے مطابق پروفیسر فیض اللہ جلال کو طالبان کی جبری حکمرانی اور افغانستان کی بدتر ہوتی معاشی صورت حال پر شدید تنقید کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ پروفیسر جلال کے مذکورہ بیان کے بعد تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا کہ طالبان اس کا بدلہ لیں گے۔حسینہ جلال نے اپنے والد کی گرفتاری کے بعد کہا تھا کہ طالبان ملک کے اندر مضبوط آوازوں کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے پوسٹس کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔حسینہ جلال نے بتایا کہ ان کے والد نے طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان چھوڑ کر جانے سے انکار کیا تھا اور کابل میں خاموشی سے رہ رہے ہیں جبکہ ان کے دیگر اہل خانہ یورپ جا چکے ہیں۔فیض اللہ جلال طویل عرصے تک کابل یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کے پروفیسر رہے ہیں۔ وہ حکومت کی نکتہ چینی اور جرات مندی کے ساتھ اپنے خیالات کے اظہار کی وجہ سے عوام میں کافی مقبول ہیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بہت سے صارفین نے پروفیسر جلال کی تصویر اپنے پروفائل پکچر کے طورپر لگالی۔