طالبان نے کیا پنجشیر پر مکمل قبضہ کرنے کا دعویٰ

    کابل، 6 ستمبر (یو این آئی) افغانستان پرحکومت کرنے والی دہشت گرد تنظیم  طالبان نے پیر کو شمال مشرقی صوبہ پنجشیر میں مزاحمتی فورسیز پر فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پورے صوبہ پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں کہا ’’کرائے کے دشمنوں  کا آخری گڑھ  صوبہ پنجشیر مکمل طور پر فتح کرلیا گیا ہے۔ ترجمان نے مبینہ طور پر پاکستانی خصوصی فورس کی مدد سے  طالبان اور مزاحمتی گروپ کے درمیان رات بھرجاری شدید لڑائی کے بعد صوبے پر قبضے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ پنجشیر میں احمد مسعود کےنیشنل ریجسٹنس فرنٹ کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کرنے کے لیے پاکستانی ڈرون اور ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا تھا۔مسٹر مسعود اور سابق نائب صدر امر اللہ صالح جنہوں نے خود کو افغانستان کا قائم مقام صدر قرار دیا ہے، کے ٹھکانے کا پتہ  نہیں ہے۔ رات بھر جاری  لڑائی کے دوران ان کے گھروں پر فضائی حملے کیے گئے۔مزاحمتی گروپ کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید مبینہ طور پر پنجشیر میں لڑائی میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض فی الحال کابل میں ہیں۔
ملا ہیبت اللہ کی جگہ ملا حسن اخوند سربراہ مملکت ہوں گے: طالبان
کابل، 6 ستمبر (یو این آئی) کئی ہفتوں کی مسلسل جدوجہد، حکومت سازی کے بارے میں جاری قیاس آرائی اور کئی دنوں کی مشاورت کے بعد افغان طالبان نے ملا محمد حسن اخوند کو سربراہ مملکت مقرر کردیا۔طالبان کے سینیئر رہنماؤں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا محمد حسن اخوند طالبان کی نئی حکومت میں ریاست کے سربراہ ہوں گے۔جیو نیوز کی رپورٹ یج اطلاع دی گئی ہے۔طالبان نے کہا ہے کہ انہوں نے پیر یعنی آج نئی حکومت کے اعلان کی تیاری مکمل کرلی تھی تاہم کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اسے ملتوی کردیا گیا۔ اب نئی حکومت کے قیام کا اعلان بدھ یا مزید دو تین دن تاخیر سے ہوسکتا ہے۔طالبان کے ایک سینیئر رہنما نے ’دی نیوز‘ کو بتایا کہ ’امیر المومنین شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خود ملا محمد حسن اخوند کو رئیسِ جمہور، یا رئیس الوزرا نامزد کیا ہے۔ ملا برادر اخوند اور ملا عبدالسلام ان کے نائب کے طور پر کام کریں گے۔‘خیال رہے کہ ملا محمد حسن اخوند اس وقت طالبان کی طاقتور فیصلہ ساز رہبری شوریٰ کے سربراہ ہیں۔ ان کا تعلق قندھار سے ہے جہاں سے طالبان کا بھی آغاز ہوا تھا۔ وہ طالبان کی مسلح تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ایک اور طالبان رہنما نے بتایا کہ ’انہوں نے 20 سال رہبری شوریٰ کے سربراہ کے طور پر کام کیا اور اپنی معتبر ساکھ قائم کی۔ وہ عسکری پس منظر نہیں رکھتے بلکہ مذہبی رہنما ہیں اور اپنے کردار اور دینداری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ملا حسن اخوند 20 سال سے شیخ ہیبت اللہ کے قریب رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملا حسن طالبان کی سابقہ حکومت میں اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ انہیں پہلے وزیر خارجہ بنایا گیا اور جب ملا محمد ربانی وزیراعظم تھے تو انہیں نائب وزیراعظم بنایا گیا۔
طالبان کے ایک اور سینیئر رکن نے بتایا کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی تجویز ہے۔ انہیں مشرقی صوبوں جہاں حقانی نیٹ ورک کا زیادہ زور ہے وہاں کے گورنرز نامزد کرنے کا بھی اختیار دیا گیا گیا۔ ان صوبوں میں پکتیہ، پکتیکا، خوست، گردیز، ننگر ہار اور کنڑ شامل ہیں۔ اسی طرح طالبان کے بانی ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کی افغانستان کے وزیر دفاع کے طور پر منظوری دی گئی ہے۔ ملا یعقوب شیخ ہیبت اللہ کے مدرسے میں ان کے طالب علم رہے ہیں۔طالبان ذرائع کے مطابق شیخ ہیبت اللہ نے ان کے والد اور ملا یعقوب کی لگن کی وجہ سے ہمیشہ ان کی عزت کی ہے اور انہوں نے ہی ملا یعقوب کو مسلح جنگوؤں کا کمانڈر ان چیف بنایا تھا اور پھر انہوں نے ہی یعقوب کو طاقور ملٹری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔افغانستان میں طالبان کی حالیہ پیش قدمی کی شروعات ملا یعقوب کی قیادت میں ہی ہوئی تھی جنہوں نے پہلے دیہی علاقوں، اضلاع اور پھر صوبوں پر کنٹرول کی منصوبہ بندی کی۔ملایعقوب کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ آپریشنز کے دوران ملایعقوب بہت کم نیند لیتے تھے اور دواؤں پر انحصار کرتے تھے جس پر بعض طالبان رہنماؤں نے انہیں اتنا زیادہ دباؤ لینے سے منع بھی کیا تھا۔طالبان ذرائع کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد کو پہلے وزیر اطلاعات کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاہم قیادت نے اپنا ارادہ تبدیل کیا اور اب انہیں سربراہ ریاست ملا محمد حسن اخوند کا ترجمان بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ ملا امیر خان متقی کو وزیر خارجہ نامزد کیا گیا ہے۔ طالبان کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ بعض ذمہ داریوں کے حوالے سے تنظیم کے اندر معمولی مسائل تھے جنہیں حل کرلیا گیا ہے۔