ایران نے مسلسل دو ماہ کے احتجاج کے بعد اخلاقی پولیس کو ختم کردیا

تہران:(ایجنسی)ایران نے مہسا امینی کی دوران حراست ہلاکت کے خلاف دو ماہ کے مسلسل پرتشدد مظاہروں کے بعد اپنی اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا کہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کو ختم کیا گیا ہے۔اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کا یہ بیان ایک مذہبی کانفرنس کے دوران سامنے آیا جس میں شریک ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ اخلاقی پولیس کو کیوں ختم کیا گیا ہے۔اخلاقی پولیس کو رسمی طور پر گشت ارشاد یا گائیڈنس پیٹرول کے نام سے جانا جاتا ہے جس کو سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ خواتین کے سر ڈھانپنے والی حیا اور حجاب کی ثقافت کو عام کیا جاسکے اور پھر یونٹس نے 2006 میں گشت شروع کیا تھا۔اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے اخلاقی پولیس کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر پارلیمان اور عدلیہ دونوں کام کر رہے ہیں کہ آیا خواتین کے سر ڈھانپنے کے قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر کہا کہ ایران کی جمہوریہ اور اسلامی بنیادیں آئینی طور پر جڑی ہوئی ہیں لیکن آئین کے نفاذ کے ایسے طریقے ہیں جو لچکدار ہو سکتے ہیں۔خیال رہے کہ ایران میں حجاب 1979 کے انقلاب کے چار سال بعد لازمی قرار دیا گیا تھا جہاں امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹ کر اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
بعد ازاں اخلاقی پولیس نے ابتدائی طور پر 15 سال قبل خواتین کو کریک ڈاؤن اور گرفتار کرنے سے پہلے وارننگ جاری کی تھی۔خیال رہے کہ ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ایران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ’غیر موزوں لباس‘ کے باعث زیر حراست موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے